از: مولانا حافظ محمد مجیب خان نقشبندی وقادری
(بانی وصدر :البشیر اسلامک فاؤنڈیشن)
صداقت شعاری اور زبان کی سچائی کی اکثر انگریز ی صرف بولی جانے والی زبان
تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ اثر اس قدر وسیع ہے کہ وہ قلب وروح کی
نفاست ونظافت سے لیکر گردوپیش میں رہنے والے انسانی معاشرے کو اس قدر متأثر
کرتا ہے کہ بسا اوقات صداقت وسچائی کی برکت نے انسانی روپ میں دکھائی دینے
والے درندہ صفت چوروں اور ڈاکوؤں کو بھی اولیاء وصالحین کی صف میں
کھڑاکرکے قابل مذمت افراد کو لائق تحسین وحاملِ مدحت بنادیا ہے ‘اس بات سے
کون واقف نہیں ہے کہ حضور سیدنا غوث آعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی راست بازی
اور سچائی ہی نے چوروں اور لٹیروں کو تائب بناکر دنیا وآخرت کی کامیابی سے
ہمکنار کیا تھا زیرِ نظر مضمون کوئی عام فرد کی صداقت وسچائی کے بارے میں
نہیں ہے بلکہ اُس عظیم شخصیت سے متعلق ہے جو شخصیت سچائی سے نہیں پہچانی
گئی بلکہ خود صداقت وسچائی اُنکی جلیل القدر ذات سے پہچانی گئی ہے حضرت
سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُ س پیکر صدق وصفا کا نام ہے
جنکی صداقت سے بھر پو ر بولیوں کو سننے کیلئے اپنے وقت کے ائمہ وفقہا اور
محدثین وصالحین سرتاپا کان بن جایا کرتے تھے جیسا کہ فخر المحدثین حضرت
سیدنا امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ آپکی بارگاہ میں حاضر ہوکر
اکتساب فیض فرماتے ہوئے ایک موقع پر امام جعفر صادق سے عرض کرتے ہیں
حَدِّثْنِیْ حَدِیْثَنَا اَسْمَعُہُ مِنْکَ وَاَقُوْمُ (نور الابصار:ص؍۱۶۰)
یعنی اے فرزند رسول آپ مجھے جانے کی اجازت مرحمت فرمارہے ہیں مگر پہلے آپ
مجھے ایک حدیث بیان فرمائیں کہ میں آپ سے سن کر ہی اٹھونگا‘ اس طرح لاکھوں
احادیث بیان کرنے والے سفیان ثوری کا آپکی زبان صداقت سے کچھ سننے کی تمنا
کرنا آپکی زبان مبارک کی انفرادی وامتیازی شان کو واضح کرتا ہے اسی طرح
امام آعظم ‘امام مالک ‘سفیان بن عیینہ وغیرہ اکابر فقہاومحدثین آپکے صدق
مقال کے سامنے کچھ کہنے کی جسارت نہیں کرسکتے تھے اسی لیئے صاحب حلیۃ
الاولیاء حافظ أبو نعیم اصفہانی نے آپ کو الامام الناطق یعنی بولنے والے
امام کے لقب سے یاد کیا ہے
واضح ہوکہ صداقت وسچائی وہ متاع عزیز ہے جس پر سارے دین کی بنیاد کھڑی ہے
اور سارا نظام اسلام سچائی کے گرد گھومتا ہے حضرت ابوالقاسم قشیری نے صداقت
کو درجہء نبوت کے قریب بتایا ہے (رسالہ قشیریہ :ص؍۲۴۵)
حضرت احمد بن خضرویہ نے فرمایا امَنْ اَرَادَ اَنْ یَّکُوْنَ اللہ مَعَہُ
فَلْیُلْزِمِ الصِّدْقَ(الرسالۃ القرشیریہ:ص۲۴۶)یعنی جو شخص یہ چاہتا ہے کہ
اس کے ساتھ اللہ ہوجائے تو اُس کو چاہیئے کہ سچائی کو لازم کرلے نیز معیت
الٰہی وہ پیش بہا دولت ہے جس کے سبب بندے کو ہر کمال حاصل ہوتا ہے چنانچہ
اس پہلو سے دیکھا جائے تو پتہ چلے گا کہ جو صادق ہوتا ہے وہ متقی بھی ہوتا
ہے زاہد بھی ہوتا ہے عالم بھی ہوتا ہے عارف بھی ہوتا ہے فقیہ بھی ہو تا ہے
سخی بھی ہوتا ہے اور صاحب استقامت وکرامت بھی ہوتا ہے غرضکہ جو اعلیٰ درجے
کا صادق ہوتا ہے اُس کے دامن میں نبوت ورسالت کے سوا ہر فضل وکمال سمٹ کر
آجاتا ہے مگر حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ میدان صداقت میں اُس
کا مل ترین ہستی کانام ہے کہ �آپکی شانِ صداقت کی عظمت کی وجہ سے لفظِ
صداقت آپکے القاب میں ایسا مشہور ترین لقب ہوا کہ یہ لفظ اپکے نام پاک کا
جزاء لاینفک بن گیا ‘پھر اوائل دور سے ہی لوگ آپکو امام جعفر
نہیں بلکہ
امام جعفر صادق کے نام سے موسوم کرتے رہے ‘یقیناًصادق کا لقب دراصل باعظمت
شخصیت کا آئینہ دار ہے ‘ صداقت کا نور جہا ں آپکو اپنے آباء واجداد کرام
علیھم السلام سے حاصل ہوا وہیں خلیفہ ء اول حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کی شانِ صدیقیت نے بھی آپکو پیکر صدق وصفابنایا چنانچہ آپ خود
ارشاد فرماتے ہیں وَلَدَنِی الصِّدّیْقُ مَرَّتَیْنِ (نور الابصار :ص؍۱۶۰)
مجھے حضرت صدیق اکبر نے دو اعتبار سے جنم دیا ہے چونکہ آپکی والدۂ ماجدہ
حضرت فَرْوَہْ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پڑپوتی ہیں پھر حضرت
فروہ کی دادی حضرت اسماء سیدنا صدیق اکبر کی پوتری ہوتی ہیں اس طرح آپ بطور
ولادت ‘دو جہتوں سے حضرت صدیق اکبر سے نسبت رکھتے ہیں مگر حضرت امام جعفر
صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اپنے تعارف کے وقت حضرت سیدنا ابوبکر خلیفہ ء
اول کے تذکرے کے ضمن میں صدیق کا لفظ استعمال کرنا اس جانب اشارہ ہوسکتا ہے
کہ میں اسلیئے صادق بنا ہو ں چونکہ مجھے حضرت صدیق اکبر کے چشمہ فیض سے
سیرابی عطا ہوئی ہے حسن اتفاق ہے کہ اُدہر حضرت سیدنا ابوبکر رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کے نام کا جز صدیق بنا اِدہر حضرت امام جعفر رضی اللہ تعالیٰ
عنہ کے نام کا جز صادق ہوا آپکا لقب صادق ہونے میں یہ حکمت بھی کارفرماہے
کہ آپکے جدکریم سرکار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا لقب بھی صادق ہے ‘یہ
بات کسی سے مخفی نہیں ہے کہ قبل از اسلام کفار ومشرکین بھی حضور پاک صلی
اللہ علیہ وسلم کو صادِق وامین کے لقب سے موسوم کرتے تھے اس تناظر میں
دیکھا جائے تو امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صداقت کی خصوصی شان
سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتِ صادق سے عطا ہوئی واضح ہوکہ ائمہ
اہل بیت میں سے ہر ایک کو سرکار مدینہ کی کسی ایک شان کا مظہر بنایا گیا
مثلاحضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضور کی شہادت سری کا مظہر
بنایا گیا حضرت امام حسین علیہ السلام کو شہادت جہری کا مظہر بنایا گیا
حضرت امام زین العابدین کو آپکی عبادت کا مظہر بنایا گیا حضرت امام باقر
رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپکی علمیت کا مظہر بنایا گیا اسی طرح حضرت امام
جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سرکار کی شانِ صداقت کا مظہر بنایا گیا
اس لیئے آپکو صادق کہا جاتا ہے ایسے تو آپکی مکمل ذات صداقت سے عبارت ہے
مگر چونکہ صداقت کا زیادہ تر تعلق زبان سے ہے اس لیئے یہاں آپکی صداقت
لسانی کی برکتوں کے ایک دو نمونے پیش کئے جاتے ہیں واضح ہوکہ آپکی صداقت نے
آپکو مستجاب الدعوات بنادیا تھا چنانچہ روایت میں آتا ہے وَکَانَ جَعْفَرُ
الصَّادِقُ مُجَابَ الدَّعْوَۃِ اِذَا سَاَلَ اللّٰہُ شَیْءًا لَا یَتِمُّ
قَوْلُہُ اِلَّا وَھُوَ بَیْنَ یَدَیْہِ (نور الابصار :ص؍۱۶۱)یعنی آپ
اسقدر مستتجاب الدعوات اور مقبولِ دعا تھے کہ جب آپ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ
میں کچھ بھی سوال کرتے تو ادہر آپکے دعائیہ الفاظ ختم نہ ہونے پاتے اُدہر
وہ شی ء سامنے حاضر ہوجاتی تھی ۔اسی طرح حضرت ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے
آپکی شانِ صداقت کو دیکھکر فرمایا ثِقَۃٌ لَا یُسْألُ عَنْ مِثْلِہِ(اسعاف
الراغبین :ص؍۲۴۸) یعنی بیان وروایت میں آپ ایسے با اعتماد ہیں کہ آپکے
متعلق درست ونادرست کا سوال ہی نہیں کیا جاسکتا آپکے ہاں سچائی سے محبت اور
جھوٹ سے نفرت کا یہ عالم تھا کہ آپ نے فرمایا جھوٹ سے بڑھکر کوئی بیماری
نہیں ہے (حلیۃ الاولیاء :ج؍۳،ص؍۱۹۶) آپکی ایسی شانِ صداقت کی وجہ سے آپکو
صادق کہا جاتا ہے ۔